جامعہ کا نظامِ تعلیم ایک متوازن، مربوط اور منظم طریقۂ کار پر قائم ہے، جس کا مقصد طلبہ کی علمی، فکری اور روحانی تربیت کو یقینی بنانا ہے۔ یہ نظام تین بنیاد ی ستونوں پر مشتمل ہے۔
جامعہ میں درسِ نظامی کے اسباق کا آغاز صبح سے دوپہر تک ہوتاہے، جس کے سات پیریڈز ہوتے ہیں اورچار پیریڈز مکمل ہونے کے بعد بیس منٹ کا وقفہ دیاجاتاہے۔ان اوقات میں اساتذہ کرام اپنے اپنے مفوضہ اسباق پورے اہتمام اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھاتے ہیں،اوریہی مرحلہ طلبہ کو علمی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
دوپہر کے کھانے کےبعد نمازِ ظہر کی آذان تک تمام طلبہ کو مسنون قیلولہ کا پابند بنایا جاتا ہے۔
تکرار کا مرحلہ دو حصوں پر مشتمل ہوتاہے:۔
1- پہلا مرحلہ ظہر کے بعد شروع ہوتاہے،اور نمازِ عصر کی آذان سےتقریبا آدھا گھنٹہ پہلے تک جاری رہتا ہے ۔تکرار میں طلبہ اپنا یومیہ سبق دہراتے ہیں اور اس کی پختگی کی کوشش کرتے ہیں۔
2- جبکہ دوسرا مرحلہ نمازِ عشاء کے بعد شروع ہوتاہے،اور موسم کے تقاضے کے مطابق دیڑھ یا دو گھنٹے تک جاری رہتا ہے۔
مغرب کے بعد مطالعہ کی ترتیب ہوتی ہے، جس میں طلبہ کو انفرادی طور پر درسی کتابوں کا آنے والے کل کے سبق کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اوران کی مشکل مباحث کو ازخود حل کرنے کےلئے ایک پرسکون ماحول فراہم کرتاہے،یہ وقت ان کی فکری پختگی اورعلمی استعداد کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
الحمدللہ جامعہ میں تدریس ،تکرار اور مطالعہ کے تمام اوقات میں حاضری کا ایک منظم نظام قائم ہے، جو طلبہ کو وقت کی پابندی اور ذمے داری کا خوگر بناتا ہے۔ اسی منظم حاضری اور نگرانی کی وجہ سے مطالعہ اورتکرار کا ماحول انتہائی سنجیدہ اور بامقصد ہوتا ہے۔
صاحب ترتیب سے مراد وہ طلباء ہوتے ہیں،جن کے پورے سال کی حاضری سوفیصد ہوتی ہے،درس گاہ میں روزانہ کے اسباق،تکرار اور مطالعہ کے تمام اوقات میں نہ انہوں نے رخصت لی ہوتی ہے،اور نہ ہی غیر حاضری کی ہوتی ہے،ایسے طلباء کو حوصلہ آفزائی کی غرض سے سال کے آخر میں انعام کے ساتھ ساتھ ایک اعزازی سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیا جاتاہے۔
جامعہ میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت کا بھی خاص اہتمام ہے۔چنانچہ طلباء کو منزل پختہ کرنے اور تلاوت کی عادت ڈالنے کی غرض سے ظہر کی تکرار کے بعد اور عصر کی نماز سے پہلے ،تقریبا آدھا گھنٹہ خالصتاً قرآن مجید کی تلاوت کے لیے مختص ہے۔ اس وقت میں تمام طلبہ بغیر کسی استثنا کے تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوتے ہیں۔اور یہ سلسلہ نمازِ عصر تک جاری رہتا ہے۔
صبح کی نماز کے بعد"اسؤ ہ رسول اکرم" سے مختصر سے تعلیم ہوتی ہے،اس کے بعد تمام طلباء "سورۃ یٰسٓ " پڑھنےکا اہتمام کرتے ہیں۔
نماز عصر کے بعد "آداب المتعلمین" سے مختصر تعلیم ہوتی ہے،اس کے بعد ختم خواجگان کا اہتمام ہوتاہے،اس میں تمام طلباء اور اساتذہ کرام شرکت کرتے ہیں۔
مغرب کی نماز کے بعد دو سنتوں کے بعد "تمام طلباء بشمول اساتذہ کرام" سورہ واقعہ "پڑھتے ہیں۔
جامعہ میں روحانی سلسلہ کے اکابر و مشائخ کے منشا اورحکم کے مطابق روحانی و اصلاحی مجالس کا بھی انعقاد ہوتاہے۔اتوار کو بعد از نماز عصر، کسی کتا ب سےمختصر اصلاحی تعلیم یا ترغیبی بیان ہوتا ہے،اس کے بعد ترغیبی ذکر ہوتا ہے۔جبکہ جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کے بعد، مجلس ذکر کا اہتمام ہوتاہے۔اس کے علاوہ ہرشمسی ماہ کی دوسری جمعرات کو تحریکِ ایمان وتقوی(منطقہ اسلام آباد) کے زیرِ اہتمام طلباء اور اہل علاقہ کےلئے اصلاحی مجلس کا اہتمام ہوتاہے،اس کا دورانیہ نماز مغرب کے بعد سے عشاء کی نماز تک ہے۔
اکابر علمائے کرام سے استفادے کےسنہری مواقع جامعہ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وقتاً فوقتاً ملک کے طول وعرض سےاسلام آباد یا اس کے قرب وجوار میں تشریف لانے والے شیوخ،اہل اللہ اور اہل علم حضرات، جن کی صحبت، بیانات اور علمی مجالس سے طلبہ کو براہِ راست علمی و روحانی استفادے کا موقع میسر آتا ہے۔ ان سے علمی و روحانی استفادہ طلبہ کے شوق کو جِلا بخشتی ہے اور ان کے فکری افق کو وسعت دیتی ہیں۔
یہ پورا نظام مکمل نظم و ضبط، مسلسل نگرانی، اور تربیتی ماحول میں جاری رہتا ہے، جو طلبہ کو صرف علمی نہیں، بلکہ عملی زندگی کے لیے بھی تیار کرتا ہے۔
رپورٹ میں ہر طالب علم کے تینوں تعلیمی مراحل یعنی "پہلی سہ ماہی"، "دوسری سہ ماہی"، اور "سالانہ امتحان" میں کارکردگی کی مکمل تفصیل ہوتی ہے۔رپورٹ میں والدین کوبتایا جاتاہے کہ ایک سہ ماہی میں کل کتنے نمبر ہوتے ہیں،اور ان میں سے آپ کے فرزند نے کتنے نمبر حاصل کئے ہیں۔نیز یہ بھی بتایا جاتاہے کہ گریڈ کے اعتبار سے اس نے کونسا گریڈ حاصل کیا ہے،اور فیصد کے اعتبار سے اس کے کتنے نمبر بنتے ہیں۔اور یہ ساری تفصیل اس لئے ہوتی ہے تاکہ والدین پر اپنے فرزند کی تعلیمی کارکردگی خوب واضح ہوجائے۔
طالبِ علم کی سال بھر کی حاضری کو بھی رپورٹ میں اہمیت حاصل ہے۔ ہر سہ ماہی کی علیحدہ مجموعی حاضری کا فیصد بھی درج کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں،حاضری کا حساب دنوں کے اعتبار سے نہیں کیا جاتا،بلکہ گھنٹوں یعنی پیریڈزکے حساب سے کیا جاتاہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ والدین کو اپنے بیٹے کے اوقات کا تفصیلی اندازہ ہوجائے۔
جامعہ میں تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی معیار پر بھی گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ رپورٹ میں طالب علم کی دینداری، اساتذہ و طلبہ سے برتاؤ، دینی رجحان، صفائی ستھرائی اور جماعتی نظم و ضبط جیسے پہلوؤں پر علیحدہ علیحدہ رائے دی جاتی ہے۔ ان پہلوؤں کو “بہت اچھا”، “اچھا”، “مناسب” یا “قابلِ توجہ” جیسے الفاظ سے درج کیا جاتا ہے۔یہ اہتمام اس لئے ہوتا ہےکہ اگر طالبِ علم نے کوئی مثبت اور اچھی کارکردگی دکھائی ہے تو اس کو اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ والدین سے بھی داد اور حوصلہ ملے اور خدانخواستہ اگر اس نے غفلت اور لاپر واہی سے کام لیا ہے۔ تو پھر اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ والدین سے بھی تنبیہ کا مستحق ہوتا ہے۔
اگر طالب علم مدرسہ کے ہاسٹل میں مقیم ہے تو رہائش گاہ میں صفائی، وقت کی پابندی اور معمولات پر عمل کی بھی رپورٹ درج کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے آخر میں سرپرست کے تاثرات اور تجاویز کے لیے جگہ مخصوص کی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنے مشاہدات، اطمینان، یا کسی ممکنہ بہتری کی تجویز دےسکیں۔
یہ رپورٹ نہ صرف طالب علم کی کارکردگی کا آئینہ ہوتی ہے بلکہ ادارہ اور والدین کے مابین ایک مضبوط رابطے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اس سے جہاں ادارے کو اپنی تعلیمی و تربیتی کاوشوں کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے، وہیں والدین کو بھی اپنے بچوں کی صحیح سمت میں پیش رفت پر اعتماد حاصل ہوتا ہے۔